۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 360523
7 مئی 2020 - 18:47
مولانا فیروز علی بنارسی صاحب قبلہ

حوزہ/مجاہدین راہ حق کی زریں فہرست میں جناب مختار کا نام نامی بھی ہے جنھوں نے اپنے قیام کے ذریعہ اہل بیت ؑ پر ڈھائے گئے مظالم کا بدلہ لیا اور امام معصوم ؑ کی خوشی کا باعث اور دعائے خیر کے مستحق قرار پائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ ایسے بہادروں اور سورماؤں کے تذکروں سے پر ہے جنھوں نے اپنی زندگی میں وہ عظیم کارنامے انجام دیئے جس کے سبب تاریخ میں ایک نیا باب کھول دیا ۔ایسے قیام اور انقلاب برپاکئے جس نے ظلم و جور کے تختہ پلٹ دیا ۔ مظلوموں کو ان کا حق دلایا اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہونچا دیا ۔
انھیں مجاہدین راہ حق کی زریں فہرست میں جناب مختار کا نام نامی بھی ہے جنھوں نے اپنے قیام کے ذریعہ اہل بیت ؑ پر ڈھائے گئے مظالم کا بدلہ لیا اور امام معصوم ؑ کی خوشی کا باعث اور دعائے خیر کے مستحق قرار پائے۔
جناب مختار ۱ ؁ھ ہجری میں عرب کے مشہور و معروف قبیلہ ثقیف میں پیدا ہوئے ۔(روضۃ الصفا،ج۳، ص۲۰۸)
 جس کی شجاعت ، دلیری ، سخاوت اور جواں مردی کا چاروں طرف چرچا تھا۔(الغارات، ج۲، ص۵۱۷)
آپ کے والد ابو عبیدہ ثقفی رسول اکرم  ﷺ کے جلیل القدر اصحاب میں سے تھے ۔ آپ کا پورا خاندان ، اہل بیت ؑ کا دوستدار اورحامی تھا خاص طور سے آپ کے چچا سعد بن مسعود حضرت علی ں  کے مورد اعتماد اصحاب میں سے تھے ، امام ؑ نے  اپنے دور خلافت میں انھیں مدائن کا گورنر معین فرمایااور وہ آنحضرت ؑ کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے برسر پیکار ہوئے اور خلافت امام حسن ں میں بھی مدائن کے گورنر کے عہدہ پر باقی رہے۔
آپ کی والدہ ، دومۃ بنت وہب تاریخ اسلام کی عظیم الشان خواتین میں شمار ہوتی ہیں ۔ ان کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ وہ ایک بہترین سخنور، مدبر اور عقلمند خاتون تھیں۔
جناب مختاربچپنے ہی سے ایک شجاع اور بہادرانسان تھے جو کسی چیز سے نہیں ڈرتے تھے اور نہایت عقلمند اور حاضر جواب تھے ۔ وہ صفات حمیدہ کے مالک اور سخی انسان تھے ۔ بڑے سے بڑے اور پیچیدہ س پیچیدہ مسائل کو اپنی ذہانت و فراست کی بدولت بآسانی سمجھ لیتے تھے ۔ وہ بلند ہمت ، تیز بین اور دور اندیش انسان تھے۔ جنگوں میں پہاڑ کی مانند محکم و استوار ، اہل بیت ؑ سے محبت اور ان کے دشمنوں سے عداوت کے سلسلہ میں زباں زد خاص و عام تھے۔(بحار الانوار، ج۴۵، ص۳۵۰)
جناب مختار نے پہلی با ر ۱۳؍ سال کی عمر میں ایک عظیم جنگ میں شرکت کی ۔ جب سپاہ اسلام کسریٰ سے جنگ کے لئے مدینہ سے عراق اور ایران کی طرف روانہ ہوئی تو خلیفہ دوم نے اس لشکر کی سرداری آ پ کے والد ابو عبیدہ کے سپرد کی، وہ آپ کو بھی اس لشکر میں اپنے ساتھ لے گئے۔(بحار الانوار، ج۴۵، ص۳۵۰)
جناب مختار ، معصومین ؑ کی نظر میں
حضرت علی ں  نے ارشاد فرمایا:
 سَیُقتَلُ وَلَدِیَ الْحُسَینُ وَ سَیَخْرُجُ غُلامٌ مِن  ثَقِیفٍ وَ یَقتُلُ مَنِ الَّذِینَ  ظَلَمُوا ثَلاثَمِأَۃٍ وَ ثَلاثَۃً وَ ثَمَانِینَ اَلفِ رَجُل۔(معجم رجال الحدیث،ج۱۹، ص۱۰۹)
’’ عنقریب میرا فرزند حسین ؑ شہید کردیا جائے گا۔ لیکن زیادہ مدت نہ گزرے گی کہ قبیلہ ثقیف کا ایک جوان قیام کرے گا اور ان ظالموں سے اس طرح انتقام لے گا کہ ان کے کشتوں کی تعداد تین لاکھ اسی ہزار ہوجائے گی۔‘‘
مولائے کائنات کے مشہور و معروف صحابی جناب اصبغ بن نباتہ کا بیان ہے :
ایک دن نے دیکھا کہ حضرت علیںمختار کو اپنے زانو پر بٹھاکر شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں اور یہ فرمارہے ہیں: یا کیِّس ! یَا کَیِّس! (اے ذہین او ہوشیارانسان)(معجم رجال الحدیث،ج۱۹، ص۱۰۳)
حضرت علی ں  نے مسلمانوں اور بنی اسرائیل کے درمیان پائی جانے والی شباہتوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: عنقریب خدا وند عالم ظالموں کو ان کے ذریعہ بلاؤں میں مبتلا کرے گا جسے وہ ہمارا انتقام لنیے کے لئے بھیجے گا اور یہ بلاو مصیبت خود ان کے فسق و فجور کا نتیجہ ہوگی،جس کے وہ مرتکب ہوئے ہیں ۔بالکل ویسے ہی جیسے بنی اسرائیل عذاب میں گرفتار ہوئے تھے۔۔۔ وہ قبیلہ ثقیف کا ایک جوان ، جسے مختار بن ابی عبیدہ کہتے ہیں۔(حدیقۃ الشیعہ، ص۵۰۹)
امام حسین ں  نے راہ کربلا میں ایک خطبہ کے بعد ارشاد فرمایا: خدایا! اس ثقفی جوان کو ان پر مسلط فرما تاکہ وہ انھیں موت اور ذلت کا تلخ جام پلائے اور ہمارے قاتلوں میں سے کسی کو بھی معاف نہ کرے، ہر قتل کے بدلہ قتل اور ہر ضرب کے بدلے ضرب اور ان سے ہمارا اور ہمارے خاندان ، اصحاب اور شیعوں کا انتقام لے لے۔(بحار الانوار، ج۴۵،ص۳۴۰)

جب جناب مختار نے عمر سعد اور ابن زیاد کے کٹے ہوئے سر امام زین العابدین ں  کی خدمت میں بھیجا تو امام ؑ یہ دیکھ کر سجدہ میں گر پڑے اور اس طرح حمد خدا کی:
 اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَدرَکَ لِی ثَارِی مِن اَعدَائِی وَ جَزَی اللّٰہُ الْمُختَارَ خَیراً۔(جامع الرواۃ، ج۱،ص۲۲)
 حمد و ثنا اس پروردگار کی جس نے ہمارے دشمنوں سے انتقام لے لیا ، خد ا مختار کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
اسی طرح جب ان دونوں کے سر جناب محمد بن حنفیہ کے پاس پہونچے تو آپ نے بارگاہ خدا میں اس طرح دعاکی :
پروردگارا! مختار کو جزائے خیر عطا فرما اور انھیں بہتریں انعام و اکرام سے نواز ۔ بے شک انھوں نے ہمارا انتقام لے لیا اوریہ کہا: ہر بنی مطلب پر  ان کے حق کی رعایت لازم ہے۔(مجمع الرجال قہبائی، ج۶، ص۷۸۔)
ایک مرتبہ امام محمد باقر  ں  کے حضور جناب مختار کا تذکرہ جھڑگیا تو کچھ لوگوں نے انھیں برا بھلا کہنا شروع کردیا ۔ امام- نے انھیں اس کام سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 لا تَسَبُّوا الْمُختَارَ فَاِنَّہُ قَتَلَ قَتَلَتَنَا وَ طَلَبَ ثَارَنَا وَ زَوَّجَ اَرَامِلَنَا وَ قَسَّمَ فِینَا الْمَالَ عَلَی الْعُسْرَۃ۔(معجم رجال الحدیث،ج۱۹، ص۱۰۲)
’’مختار کو برا مت کہو، اس لئے کہ انھوں نے ہمارے شہیدوں کے قاتلوں کو قتل کیا اور ہمارے ناحق خون کا بدلہ لیا ۔۔۔۔‘‘
ایک مرتبہ عید قربان کے دن جناب مختار کے فرزند ’’ حکم‘‘ امام محمد باقر ں  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ؑ سے عرض کیا کہ لوگ ان کے والد کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں ۔ انھیں کذاب اور جھوٹا کہتے ہیں۔ امام ں  نے حکم بن مختار سے فرمایا:
 سُبحَان اللّٰہِ اَخبََرنِی اَبِی وَ اللّٰہِ اِنَّ مَھْرَ اُمِّیْ کَانَ مِمَّا بَعَثَ بِہِ الْمُختَارُ وَلَمْ یَبنِ دُورَنَا وَ قَتَلَ قَاتِلِینَا وَ طَلَبَ بِدِمَائِنَا۔ رَحِمَہُ اللّہُ ۔۔۔۔ رَحِمَ اللّٰہُ اَبَاکَ رَحِمَ اللّٰہُ اَبَاکَ مَا تَرَکَ حَقّاً عِندَ اَحَدٍ اِلَّا طَلَبَہُ ، قَتَلَ قَتَلَتَنَا وَ طَلَبَ بِدِمَائِنَا۔
پاک منزہ ہے ذات پروردگار۔ خدا کی قسم میرے والد ماجد نے مجھے خبر دی ہے کہ میری ماں کا مہر وہ رقم تھی جو مختار نے آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔کیا مختا ر نے ہمارے گھروں کو تعمیر نہیں کیا،ہمارے قاتلوں کو قتل نہیں کیا اور ہمارے خون کا بدلہ نہیں لیا؟! خدا ان پر رحمت نازل کرے۔۔(معجم رجال االحدیث، ج۱۹،ص۱۰۳۔)
امام جعفر صادق  ں  ارشاد فرماتے ہیں:
 مَا امْتَشَطَتْ فِینَا ھَاشِمِیَّۃٌ وَ لا اِخْتَضَبَتْ حَتّیٰ بَعَثَ اِلَیْنَا الْمُخْتَارُ بِرُؤُوْسِ الَّذِیْنَ قَتَلُوا الْحُسَیْن ں ۔
(واقعۂ کربلا کے بعد ) بنی ہاشم کی کسی خاتون نے زینت نہیں کی اور خضاب نہیں لگایا یہاں تک کہ مختار نے امام حسین  ؑ نے قاتلوں کے سر ہمارے پاس بھیج دئے۔
اس روایت کے بارے میں آیۃ اللہ خوئی  ؒ فرماتے ہیں: وَ ھٰذِہِ الرِّوَایَۃُ صَحِیحَۃٌ، سند کے اعتبار سے یہ روایت’’صحیح ‘‘ ہے۔(معجم رجال الحدیث، ج۱۹، ص۱۰۲)
جناب مختار اور سفیر حسینی  ؑ
قیام حسینی  ؑ کے آغازہی سے جناب مختارکوفہ میں امام ں کے اصلی حامیوں میں شمار ہوتے تھے اور یزیدی حکومت کے سخت مخالف مانے جاتے تھے۔ جب سفیر حسینی جناب مسلم بن عقیل وارد کوفہ ہوئے تو آپ نے جناب مختار ہی کے گھر قیام کیا اور وہیں سے اموی حکومت کے خلاف قیام کی رہبری فرمائی۔ جناب مختار نے جناب مسلم ں کی کھل کر حمایت کی اور لوگوں سے بیعت لینے کے سلسلہ میں ہر طرح سے ان کی مدد کی ۔لیکن جس رات جناب مسلم نے مسجد کوفہ میں نماز مغربین کی امامت فرمائی اور سارے نمازی آپ کو اکیلا چھوڑ کر چلے گئے اور مجبور ہو کر آپ نے طوعہ کے گھر میں پناہ لی اور وہیں سے گرفتار لئے گئے، اس وقت جناب مختار کوفہ میں نہیں تھے ۔ مختار اس وقت کوفہ واپس آئے جب جناب مسلم کو شہید کردیا گیا تھے اور ابن زیاد کوفہ پر پوری طرح مسلط ہو چکا تھا۔ جناب مختار شہر میں داخل ہوتے ہی گرفتار کر لئے جاتے ہیں اور انھیں ایک ایسے قید خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں پہلے سے ہی جناب میثم تمار ؑ، عبد اللہ بن حارث اور دیگر شیعیان و دوستداران اہل بیت ؑ کو قیدی بنا کر رکھا گیا تھاتاکہ یہ حضرات ، امام حسین ں  کے عراق آنے کی صورت میں آپ کی نصرت نہ کر سکیں۔
جناب مختار نے قید خانہ سے مدینہ میں اپنے بہنوئی عبد اللہ بن عمر کو ایک خط لکھا اور اس سے درخواست کہ وہ یزید کے نام ایک خط لکھے کہ وہ ابن زیاد کو حکم دے کہ مختار کو آزاد کردیا جائے۔جیسے ہی خلیفہ دوم کے بیٹے عبد اللہ کا خط یزید کے پاس پہونچا،اس نے فوراً ابن زیاد کے پاس ایک خط لکھا:
میرا خط پڑھتے ہی مختار کو آزاد کردے اور انھیں کوئی گزند نہ پہونچا۔ والسلام
ادھر ابن زیاد مختار کو قتل کرنے کی سازش رچ رہا تھا، لیکن یزید کا حکم دیکھ کر جناب مختار کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگیا ۔لیکن ان پر کوفہ سے باہر جانے پر پابندی لگا دی۔
جناب مختار اس وقت ابن زیاد کی قید سے آزاد ہوئے جب واقعۂ کربلا رونماہوچکا تھا ۔انھیں اس بات کا کافی افسوس تھا کہ انھیں امام حسین ں کے جانثاروں میں شامل ہوسکے اور یہی افسوس اور حسرت تھی جس نے مختار کو ایک ایسے قیام اور انقلاب پر ابھارا جس نے اہل بیت ؑ پر چھائے ہوئے غم و اندوہ کے سیاہ بادلوں کو کسی حد تک چھانٹ دیا اور قاتلین امام اورشہدائے کربلا کو اسی دنیا میں آتش جہنم کا مزہ چکھا دیا۔
شجاعت مختار کا ایک نمونہ
واقعہ کربلا اور ابن زیاد کے کوفہ پر مسلط ہونے کے بعد محبان اہل بیت ؑ کا قلع قمع کردیا گیا۔ ایک دن ابن زیاد مسجد کوفہ کے منبر سے امیر المومنین علی ں  اور آپ کی آل طاہرین کی توہین کی ۔ لیکن اس وقعہ سے پہلے چند مخالفین کی شہادت کی وجہ سے کسی میں یہ جرأت نہ ہوئی کہ ابن زیاد کا جواب دیتا۔ہر طرف خاموشی چھائی تھی کہ اچانک مسجد کے ایک گوشہ سے ایک آواز بلند ہوئی، جس نے ابن زیاد کو لرزا دیا : تجھ پر لعنت ہو ، اے ابن زیاد! کیا تو علی ؑ اور حسین ؑ کی توہین کررہاہے؟!! تیرا منھ ٹوٹ جائے۔واقعاً تو کون ہے؟! تو نے جو تہمتیں لگائی ہیں وہ تیرے اور تیرے امیر یزید کے لئے ہیں۔ حسین ؑ اور خاندان رسول اکرم ؐ کے لئے نہیں۔

تحریر: حجت الاسلام و المسلمین مولانا فیروز علی بنارسی 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .